سلامتی کی دعا ہے!
ہر لکھنے والا پرفیکٹ نہیں ہوتا، میں بھی نہیں ہوں۔ ہم جب کسی کو سِکھا رہے ہوتے ہیں تو ہم خود بھی اس سے سیکھ رہے ہوتے ہیں۔ برائی کو جب برائی لکھتے ہیں تو یہ بھی دیکھتے ہیں کہ یہ برائی کہیں ہم میں تو نہیں ہے؟ اگر ہے تو ختم کرنا ہے اسے۔
میں جب بھی کچھ نیا لکھتی ہوں تو حاجت کے نفل پڑھ کے لکھتی ہوں،
”اللہ تعالیٰ آپ میرے الفاظ میں اثر رکھنا، جو پڑھے وہ اس سے کچھ سیکھ جائے۔“
میں دس سال کی تھی جب میری امی فوت ہو گئیں۔میں نے اپنی بڑی بہنوں سے سنا، امی کہا کرتی تھیں کہ” اسے ذاکرہ بنائیں گے“ کیونکہ میری آواز بہت پیاری تھی۔ چند سال پہلے الہدیٰ میں پڑھتے ہوئے میں سوچا کرتی تھی کہ میں ”بہترین عالمہ بن کر بہت اچھا سِکھایا کروں گی۔“
میں ذاکرہ نہیں بنی، میں عالمہ بھی نہیں بنی، ہاں میں لکھاری بن گئی۔ مقصد سکھانا تھا، اہم بات سیکھنا تھا۔
اچھا، بہترین سِکھانے کا شوق تھا۔ ایک دن یونہی فیس بک پر ماؤں کے ایک گروپ میں لکھا میں نے اور پھر لکھتی چلی گئی ۔ بہت سے گروپس تھے جہاں میرا لکھا بہت پسند کیا گیا۔ میرے الفاظ کو جادوئی، اثر پذیر (اثر رکھنے والے)، اور موتی کہا گیا۔
میرے لکھے کو بارش کا پہلا قطرہ کہا گیا۔
قصہ بابا بگو، لاوارث اور لاتقدر یہ تین ناول میں نے اس وقت لکھے جب نمرہ احمد کا ناول نمل چل رہا تھا۔
میں نے نمل کو پورا نہیں پڑھا تھا، چند اقساط ہی پڑھیں بس۔ میں نے نمرہ احمد کے بھی سب ناول نہیں پڑھ رکھے۔ نمل کی ایک ایک قسط بہت لمبی ہوتی تھی۔ میرا دل چاہا کہ میں بھی نمرہ کی طرح بہت زیادہ صفحات والا ناول لکھوں۔ لکھنا کیا تھا یہ نہیں معلوم تھا، بس لکھنا تھا اور بہت لکھنا تھا۔
میں اب حیران نہیں ہوتی پہلے میں بہت حیران ہوتی تھی کہ یہ جو لکھا ہے، وہ میں نے ہی لکھا ہے؟ یہ میرے ذہن میں آ کیسے گیا؛؟
یہ سب صرف اور صرف اللہ کی طرف سے ہے۔
ایک دن مجھے کسی کا میسج آیا،
”آپ نمرہ احمد تو نہیں؟ آپ کے لکھنے کا انداز ان سے بہت ملتا ہے۔“
اور میں بہت خوش ہوئی تھی۔
میں نے انھیں لکھا کہ جب میں نمرہ کو پڑھتی ہوں تو مجھے بھی یہی لگتا ہے کہ وہ الفاظ میرے ہیں۔ میں یہاں صرف لفظ اور جذبے کی بات کر رہی ہوں۔
اپنے چند ناول لکھنے کے بعد میں نے پڑھا کہ لکھنا لکھنے کی مَشق کرنے سے آتا ہے۔
لکھنے سے پہلے پڑھو تو لکھنا آتا ہے۔
یہ بھی مجھے بعد میں ہی معلوم ہوا کہ جب ناول نگار لکھنے بیٹھتے ہیں تو انہیں خاموشی چاہیے۔ بعض اوقات ان کے ذہن میں کچھ نہیں آ رہا ہوتا۔
الحمدللہ ثمہ الحمدللہ میرے ساتھ یہ سب نہیں ہوتا۔ میں بہت شور میں بھی لکھ لیتی ہوں۔ سارا ناول میں نے پانچ سال پہلے لکھا۔ اس ناول کا اینڈ ایک سال پہلے میں نے اپنے بچوں کے ساتھ لکھا اور مجھے کچھ مشکل نہیں ہوئی۔ الحمدللہ!
یہ الفاظ میں سوچ کے نہیں بناتی، بہت سے لوگ بہت سی چیزوں کے لیے چنے جاتے ہیں، میں لکھنے کے لیے چنی گئی ہوں۔
میرے لفظ مجھے اپنے بچوں کی طرح پیارے ہیں۔ جیسے جاگ جاگ کے میں نے انہیں پالا ایسے ہی اپنی نیند قربان کر کے بہت محبت سے سب لکھا۔
لکھنا میرے نزدیک کیا ہے؟
اللہ تعالیٰ نے جو قرآن میں قصے کہانیاں بیان کی ہیں ہم سب کبھی نہ کبھی، کہیں نہ کہیں ان سے خود کو ریلیٹ کرتے ہیں۔ وہ ہمیں اپنی کہانی لگتی ہے۔
وہ تو اللہ تعالیٰ کا کلام ہے، بہترین کلام لیکن کوئی بھی لکھنے والا جب لکھے تو اچھا لکھے، ایسا لکھے کہ قاری کو وہ اپنی زندگی کی کہانی لگے اور اس سے بہترین سیکھے۔
میرے نزدیک لکھنا یہ نہیں ہے کہ جو میں نے لکھا دوسرے ضرور اس پر عمل کریں۔ جیسے اللہ نے سب اچھا سکھا دیا، سب اچھا بتا دیا۔ یہ پڑھنے والے انسان پہ ہے کہ وہ اچھی بات کو اس سے لیتا ہے یا بری بات کو۔
بس یہی دعا ہے کہ لکھنے، سیکھنے اور سِکھانے کا یہ سلسلہ جاری رہے اور لوگ اس سے فائدہ حاصل کریں۔