دریا پار - Darya Par 2 Reviews

By: Dr. Rashid Ahmed Shad

Hardcopy Price

PK Flag
PKR 650
INR Flag
INR 500
USD Flag
USD 25

E-book Price

PK Flag
PKR 250
INR Flag
INR 150
USD Flag
USD 1.99

یہ کتاب ڈاکٹر رشید احمد شادؔ کی زندگی اور اس سے وابستہ یادوں کے ساتھ ساتھ ان کے قلمی سرمائے کی امین ہے۔

اِس کتاب کا پہلا حصہ ڈاکٹر رشید احمد شادؔ کی بچپن کی یادوں، ہجرت کے سفر اور اُس کے دکھوں کی داستان کو پیش کرتا ہے۔ اِس میں اُن کی ملازمت اور اعلیٰ تعیم کا ذکر بھی موجود ہے اور ازواجی زندگی بھی تحریر ہے۔ عزیز رشتے، ان سے وابستہ جذبات و احساسات اور انمول یادوں کا خزانہ بھی یہ کتاب خود میں سموئے رکھتی ہے۔

ڈاکٹر رشید احمد شادؔ کا اندازِ تحریر سادہ، دل چسپ اور رواں ہے۔ وہ سادگی سے خود سے وابستہ لوگوں کا ذکر کرتے ہیں اور اپنے جذبات و احساسات بھی لکھتے نظر آتے ہیں۔

اس کتاب کا اگلا حصہ شاعری پر مشتمل ہے۔ یہ نظمیں الفاظ کے چناؤ اور پیش کرنے کے انداز کی بدولت بےحد دل چسپ معلوم ہوتی ہیں۔ مختلف موضوعات کو ڈاکٹر رشید احمد شادؔ نے اپنے تخیل کے زور پر نہایت خوبی کے ساتھ پیش کیا ہے۔ کچھ نظمیں طنز و مزاح کی صورت بھی لکھی گئی ہیں اور اِس قدر رواں ہیں کہ پڑھنے والا بےساختہ مسکرا اٹھے۔

ISBN (Digital) 978-969-696-697-5
ISBN (Hard copy) 978-969-696-694-4
Total Pages 154
Language Urdu
Estimated Reading Time 2 hours
Genre Biography
Published By Daastan
Published On 12 Mar 2024
No videos available
Dr. Rashid Ahmed Shad

Dr. Rashid Ahmed Shad

ڈاکٹر رشید احمد شادؔ  گُرداسپور کے ایک گاؤں میں ۱۹۴۰ء میں چوہدری فتح الدین اور تالیہ بی بی کے گھر پیدا ہوئے۔ ہجرت کی پُر آشوب صعوبت میں جانی قربانیوں کا نذرانہ پیش کر کے یہ خاندان فیصل آباد کے گاؤں ۲۰۲ گ ب میں آ کر آباد ہوا۔ ان نامساعد حالات کے باوجود اس کسان گھرانے کا یہ چشم و چراغ آگے بڑھتا گیا اور حکومتی سکالرشپ حاصل کی اور پہلے بیروت سے ماسٹرز کیا پھر فلپائن کے مشہور بین الاقوامی ادارے IRRI سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ پاکستان کے نامور ادارے ”پاکستان ایگریکلچر ریسرچ کونسل“ میں تقریباً ۳ دہائیوں تک خدمات انجام دینے کے بعد سیکریٹری PARC کے طور پر ریٹائر ہوئے۔

ڈاکٹر رشید احمد شادؔ کی زندگی کا  گُرداسپور سے فیصل آباد کا سفر محنت اور لگن کی عبارت ہے۔

Reviews


Oct 31, 2022

زبان سے کچھ نہیں کہنا مگر ہر ظلم سہنا ہے
ہے میرا مشورہ کہ اہل پاکستان بن جاو
ترقی کی نہیں خواہش منزل کے ہیں گرویدہ
کرو کچھ بھی نہ بس ملک پاکستان بن جاو

دریا پار رشید احمد شاد کی سوانح عمری ہے- آپ 1940 میں بھارت کے شہر گرداسپور میں پیدا ہوے- پاکستان بننے کے بعد آپ کا خاندان ہجرت کر کے فیصل آباد کے گاؤں 202 گ ب میں آباد ہوا- آپ میلوں پیدل چل کر سکول جاتے اور بعد ازاں فیصل آباد کی ایگری کلچرل یونیورسٹی میں داخلہ لیا- BSc کے بعد فلپائن سے ماسٹرز اور ڈاکٹریٹ کی ڈگری لی- پاکستان آنے کے بعد PARC میں تیس سال نوکری کی-

کتاب مختلف حصوں میں تقسیم ہے- پہلے تو آپ ہجرت اور اس کے دوران کی مشکلات کا حال بتاتے ہیں- اس کے بعد بچپن اور پڑھائی کا ذکر ہے۔ پھر نوکری اور ازدواجی زندگی کے بارے میں بات کرتے ہیں- رشید احمد اپنے بچوں کے لیے بھی چند اوراق مخصوس کرتے ہیں- غیر ملکی دوروں اور مختلف ممالک کی تہذیب پر بھی بحث ہے- آخر میں کچھ شعر و شاعری ہے اور یہی حصہ میرے لیے سب سے دلچسپ
تھا-

اس سے پہلے میں نے اردو میں کوئی آپبیتی نہیں پڑھی اس لیے یہ کتاب میرے لیے ایک نیا تجربہ تھی- یہ بہت معلوماتی کتاب ہے اور مصنف اپنی زندگی کی داستان سے بھی ہمیں متاثرکرتے ہیں- اگر میں اس کتاب کو ایک جملے میں بیان کروں تو دریا پار مصنف کے خاندان کے لیے میراث، زراعت کے شعبے میں دلچسپی رکھنے والے لوگوں کے لیے رہنما اور عام قارئین کے لیے علم کا ذریعہ ہے۔

آخر میں داستان بک سٹور کا شکریہ کہ انہوں نے مجھے یہ کتاب پڑھنے کا موقع دیا۔

Oct 05, 2022

کتاب کا نام: دریا پار
مصنف: ڈاکٹر رشید احمد شاد
صنف: سوانح عمری
صفحات:154


دریا پار ڈاکٹر رشید احمد شاد کی سوانح عمری ہے۔ یہ کتاب دو حصوں پر مشتمل ہے۔ پہلا حصہ مصنف کے متعلق جبکہ دوسرا شاد صاحب کی شاعری پر مبنی ہے۔ اس کی سلیس سادہ مگر دلچسپ ہے۔ ڈاکٹر رشید احمد شاد "پاکستان ایگریکلچر ریسرچ کونسل" کے ساتھ تین دہائیوں تک وابستہ رہے۔
اس کتاب میں مصنف نے خود سے وابستہ لوگوں کا بھی ذکر کیا ہے۔ مصنف کا بچپن بھارت میں گزرا اور تقسیم ہند کے بعد وہ لائل پور میں آباد ہوگئے۔ تقسیم کے چند واقعات بھی اس کتاب میں درج ہیں جو یقیناً قاری کی توجہ کا سبب بنتے ہیں۔ مصنف نے اس کتاب میں اپنے بچپن، بھارت سے ہجرت، حصول تعلیم، ازدواجی زندگی اور اولاد کے بارے میں مختصراً بیان کیا ہے۔ اس کے علاوہ ان کے چند غیر ملکی دوروں کا بھی ذکر شامل ہے۔

اب بات کرتے ہیں دوسرے حصے کی جو کہ شاد صاحب کی شاعری پر مشتمل ہے۔ ان کی تحریر کردہ نظمیں خوبصورت ہیں اور چند طنز و مزاح پر مبنی ہیں۔

بطور قاری، ایک نصیحت جو میں تمام نئے لکھنے کو کرنا چاہتی ہوں وہ یہ کہ اُردو کی تحریروں میں انگریزی الفاظ کا استعمال جتنا ہوسکے کم کیا کریں۔ یہ قاری کا تسلسل توڑ دیتے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ مطالعہ کیا کریں تاکہ آپ کے ذخیرہ الفاظ میں اضافہ ہوں۔

داستان کی تمام کتابوں کی طباعت اور اشاعت خوبصورت ہے۔ صفحات کی کوالٹی بھی بہترین ہے اور کتاب میں شامل تصاویر جاذب نظر ہیں۔

Books in Same Genre