Hardcopy Price
E-book Price
پیج گنتے ہوئے ہر رات زمانہ گزرا
باز نہ آئیں مگر دیکھنے سے خواب آنکھیں
جیسا کہ بقول مصنفہ ”لفظ“ ان کی” پہلی محبت“ ٹھہرے ہیں۔ تو ان لفظوں سے محبت اور عقیدت ان کی یادداشت کے مطابق تب ہی سے شروع ہوگئی تھی جب وہ بچپن میں اپنے مرحوم والد (جن کا انتقال پردیس میں ہو گیا تھا) کے خطوط جمع کرکے ان کو بار بار پڑھتی تھیں، سونگھتی تھیں۔
اور ان میں لکھے ہوئے ہر لفظ کو اپنی ادھوری یادو اور سوچ کے نامکمل خاکوں سے جوڑ کر نئی تصویر بناتی تھیں اور پھر انھیں لکھ کر محفوظ کر لیتی تھیں۔ اور یہیں سے انھیں روز نامچہ (daily diary) لکھنے کا شوق پیدا ہوا۔ پھر شعور کی عمر کو پہنچتے پہنچتے ان کے مطابق ان کی ملاقات ہر نئے جذبے اور ہر اچھوتے احساس سے ان لفظوں ہی کے قالب میں ہوتی چلی گئی تو پھر یہ بھی اپنے اندر ہونے والی ہر واردات اور سجنے والی ہر بزم اور ہر محفل کا حال بھی لفظوں ہی کے روپ میں باہر نکلتی چلی گئیں۔ ابتداء میں اپنے اندر کے ہر حبس کو، خلش کو، ہر بکھرے ہوئے خواب کو، حاصل کو، لاحاصل کو، لوگوں کے رویوں کو، تو کبھی ان رویوں کی تھکن اور چبھن کو، کبھی اپنے لیے دنیا کی آنکھوں میں گرد کو، تو کبھی نظر اندازی کو اور پھر کبھی کبھار اچانک ملنے والے اطمینان او خوشی کو صفحہ قرطاس پر منتقل کرتی چلی گئیں۔ ان کی آنکھوں نے ایسے منظر بھی دیکھے کہ جن کو دیکھ کر آنکھیں پتھرا جائیں مگر پھر بھی وہ خواب دیکھنے سے پیچھا نہ چھڑا سکیں اسی لیئے ان کا ماننا ہے کہ ”خواب بر حق ہیں۔“
مصنفہ کے مطابق دنیا دیکھنے اور تسخیر کرنے کی اجازت جب نہ ملی تو اپنے ہی گھر کی کھڑکیوں سے دنیا کو دیکھنا اور غور کرنا شروع کر دیا اور اپنے علاوہ ’اوروں‘ کہ جبکے کرب کو محسوس کیا لکھنا شروع کر دیا بس پھر کیا تھا زندگی کے اسرار پرت در پرت کشف ہوتے چلے گئے اور مصنفہ ان کو درک کر کے اپنی بیاض سجاتی رہیں۔ آج ان کی جھولی میں گو عمدہ تعلیمی اسناد تو نہیں مگر ان کے شعری تخیل کے سبب ڈھیروں تجربات و مشاہدات ہیں، قیمتی اور آراستہ بیانات ہیں۔ بس یہی سب ہی ان کی شاعری۔
اور اس تمام شاعری میں سے کچھ بچپن کی یادیں اور کچھ باحجاب کلام کو اپنے پاس رکھ کر باقی سب کچھ سمیٹ کر اشاعت کے ارادے سے دو جلدوں میں بانٹ دیا ہے۔ جلد اول میں اپنا انتخاب اور ذاتی ملان سے قریب مجموعہ اور جلد دوم میں باقی کا کلام۔ اور دونوں ہی میں حمد، نعت، منقبت، غزل، نظم، آزاد نظم، صوفی شاعری جیسی شعری اصناف کا حق ادا کرنے کی کوشش کی ہے۔ اپنی ناچیز اور ناکافی علمی قابلیت کو برو کار لاتے ہوئے پتہ نہیں حقِ سخن ادا ہوا یا نہیں۔ یہ فیصلہ وہ آپ پر چھوڑتی ہیں۔
مصنفہ کی نظر میں یہ کتاب:
اب تک کی زندگی میں ہر وہ عنوان کہ جس سے میں جانی گئی، پہچانی گئی اور پرکھی گئی۔ یہ کتاب میری نظر میں اور میرے تخمینے کے مطابق سب سے معتبر عنوان ثابت ہوگی۔ آج تک میرا یہ سر جو کبھی کسی بھی کردار میں جھکا نہیں مگر احساسِ تفاخر سے پوری طرح اِترا کر اٹھ بھی نہ سکا اور امید و بیم کی کیفیت سے دو چار رہا تو آج یہ کتاب میرا سر پوری طرح اٹھانے کے لیے کافی ہے۔
ISBN (Digital) | 978-969-696-774-3 |
---|---|
ISBN (Hard copy) | 978-969-696-775-0 |
Total Pages | 151 |
Language | Urdu |
Estimated Reading Time | 4 hours |
Genre | Poetry |
Published By | Daastan |
Published On | 24 Dec 2022 |