خواب برحق ہیں (جلد اول) - Khuwab Barhaq Hain (Volume 1) 0 Reviews

By: Amber Rizwan

No Ratings Yet

Hardcopy Price

PK Flag
PKR 650
INR Flag
INR 400
USD Flag
USD 15

E-book Price

PK Flag
PKR 300
INR Flag
INR 150
USD Flag
USD 1.99

 

پیج    گنتے  ہوئے  ہر  رات  زمانہ  گزرا
باز نہ آئیں مگر دیکھنے سے خواب آنکھیں

جیسا کہ بقول مصنفہ ”لفظ“ ان کی” پہلی محبت“ ٹھہرے ہیں۔ تو ان لفظوں سے محبت اور عقیدت ان کی یادداشت کے مطابق تب ہی سے شروع ہوگئی تھی جب وہ بچپن میں اپنے مرحوم والد (جن کا انتقال پردیس میں ہو گیا تھا) کے خطوط جمع کرکے ان کو بار بار پڑھتی تھیں، سونگھتی تھیں۔

اور ان میں لکھے ہوئے ہر لفظ کو اپنی ادھوری یادو اور سوچ کے نامکمل خاکوں سے جوڑ کر نئی تصویر بناتی تھیں اور پھر انھیں لکھ کر محفوظ کر لیتی تھیں۔ اور یہیں سے انھیں روز نامچہ (daily diary) لکھنے کا شوق پیدا ہوا۔ پھر شعور کی عمر کو پہنچتے پہنچتے ان کے مطابق ان کی ملاقات ہر نئے جذبے اور ہر اچھوتے احساس سے ان لفظوں ہی کے قالب میں ہوتی چلی گئی تو پھر یہ بھی اپنے اندر ہونے والی ہر واردات اور سجنے والی ہر بزم اور ہر محفل کا حال بھی لفظوں ہی کے روپ میں باہر نکلتی چلی گئیں۔ ابتداء میں اپنے اندر کے ہر حبس کو، خلش کو، ہر بکھرے ہوئے خواب کو، حاصل کو، لاحاصل کو، لوگوں کے رویوں کو، تو کبھی ان رویوں کی تھکن اور چبھن کو، کبھی اپنے لیے دنیا کی آنکھوں میں گرد کو، تو کبھی نظر اندازی کو اور پھر کبھی کبھار اچانک ملنے والے اطمینان او خوشی کو صفحہ قرطاس پر منتقل کرتی چلی گئیں۔ ان کی آنکھوں نے ایسے منظر بھی دیکھے کہ جن کو دیکھ کر آنکھیں پتھرا جائیں مگر پھر بھی وہ خواب دیکھنے سے پیچھا نہ چھڑا سکیں اسی لیئے ان کا ماننا ہے کہ ”خواب بر حق ہیں۔

مصنفہ کے مطابق دنیا دیکھنے اور تسخیر کرنے کی اجازت جب نہ ملی تو اپنے ہی گھر کی کھڑکیوں سے دنیا کو دیکھنا اور غور کرنا شروع کر دیا اور اپنے علاوہ ’اوروں‘ کہ جبکے کرب کو محسوس کیا لکھنا شروع کر دیا بس پھر کیا تھا زندگی کے اسرار پرت در پرت کشف ہوتے چلے گئے اور مصنفہ ان کو درک کر کے اپنی بیاض سجاتی رہیں۔ آج ان کی جھولی میں گو عمدہ تعلیمی اسناد تو نہیں مگر ان کے شعری تخیل کے سبب ڈھیروں تجربات و مشاہدات ہیں، قیمتی اور آراستہ بیانات ہیں۔ بس یہی سب ہی ان کی شاعری۔

اور اس تمام شاعری میں سے کچھ بچپن کی یادیں اور کچھ باحجاب کلام کو اپنے پاس رکھ کر باقی سب کچھ سمیٹ کر اشاعت کے ارادے سے دو جلدوں میں بانٹ دیا ہے۔ جلد اول میں اپنا انتخاب اور ذاتی ملان سے قریب مجموعہ اور جلد دوم میں باقی کا کلام۔ اور دونوں ہی میں حمد، نعت، منقبت، غزل، نظم، آزاد نظم، صوفی شاعری جیسی شعری اصناف کا حق ادا کرنے کی کوشش کی ہے۔ اپنی ناچیز اور ناکافی علمی قابلیت کو برو کار لاتے ہوئے پتہ نہیں حقِ سخن ادا ہوا یا نہیں۔ یہ فیصلہ وہ آپ پر چھوڑتی ہیں۔

 مصنفہ کی نظر میں یہ کتاب:

اب تک کی زندگی میں ہر وہ عنوان کہ جس سے میں جانی گئی، پہچانی گئی اور پرکھی گئی۔ یہ کتاب میری نظر میں اور میرے تخمینے کے مطابق سب سے معتبر عنوان ثابت ہوگی۔ آج تک میرا یہ سر جو کبھی کسی بھی کردار میں جھکا نہیں مگر احساسِ تفاخر سے پوری طرح اِترا کر اٹھ بھی نہ سکا اور امید و بیم کی کیفیت سے دو چار رہا تو آج یہ کتاب میرا سر پوری طرح اٹھانے کے لیے کافی ہے۔

 

 

ISBN (Digital) 978-969-696-774-3
ISBN (Hard copy) 978-969-696-775-0
Total Pages 151
Language Urdu
Estimated Reading Time 4 hours
Genre Poetry
Published By Daastan
Published On 24 Dec 2022
No videos available
Amber Rizwan

Amber Rizwan

دستاویزات میں کشور اور عرفِ عام میں امبر رضوان کے نام سے جانی جانے والی اس کتاب کی مصنفہ 10 جنوری 1981ء کو کراچی میں پیدا ہوئیں۔ ابتدائی تعلیم بھی یہیں سے حاصل کی۔ ”فروبل گرامر اکیڈمی“ سے امتیازی نمبروں سے میٹرک کیا۔ بعد ازاں ”گورنمنٹ گرلز ڈگری کالج نارتھ ناظم آباد“ سے انٹرمیڈیٹ کے بعد ”گورنمنٹ پریمیئر کالج برائے خواتین“ سے بی کام کی ڈگری فرسٹ ڈویژن میں حاصل کی۔ بس کچھ نامساعد حالات اور انتہائی مجبوریوں کی بنا پر تعلیم کا سلسلہ یہیں تک جاری رکھ سکیں اور رشتۂ ازدواج میں منسلک ہو گئیں۔ ایک طویل عرصے سے اپنے گھر کی دیکھ بھال، بچوں کی پرورش اور اس ضمن میں پیش آنے والی مشکلات سے پنجہ آزمائی کے ساتھ ساتھ جہاں کھانا پکانے اور ملبوسات کی ڈیزائننگ کے فن سے غیر معمولی دلچسپی رکھنے کی وجہ سے خود کو مصروف رکھتی ہیں وہیں پڑھنے پڑھانے، قصہ گوئی اور تخلیقی لکھائی سے بھی شغف ہے۔ زمانۂ طالب علمی میں مختلف نعت خوانی، منقبت خوانی، مباحثے، بیت بازی، مضمون نویسی اور میزبانی کی غیر نصابی سرگرمیوں میں بھی ایک حد تک حصہ لیتی رہی ہیں۔

تاحال پچھلے چھ ماہ سے ”ایثار فاؤنڈیشن“نامی پرائیویٹ کالج میں آغا خان یونیورسٹی بورڈ کے طلباء کی تدریس کے فرائض بحیثیت ”اردو لٹریچر ٹیچر“ سرانجام دے رہی ہیں۔ مذکورہ بالا تمام سرگرمیوں سے ہٹ کر وہ کلیدی صلاحیت، شغف اور ذوق جس کی تکمیل کے سفر کی منزل کا تعاقب کرتے کرتے مصنفہ آج اس ”کتاب“ تک پہنچ گئی ہیں، وہ فنِ شعر و شاعری ہے۔

Reviews


Be the first to review it. Start now.

Books by Same Author


Books in Same Genre