"جناب اسرؔار جامعی نہایت پْر آشوب دورمیں سراپا آشوب ہیں، پیرائیہ اظہار ہے طنزومزاح، وہ بھی شعر میں ، صورت سے نہایت مسکین اور اپنے اشعار میں نہایت جری، جہاں کہیں ناہمواری، ظلم زیادتی، بے رحمی اور بے وقعتی پائی وہیں سینہ سپر، قلپ کو تلوار اور لفظوں کو تیر و تبر کی طرح برتنے کا فن انہیں آتا ہے تو ناہمواری ، ظلم اور منافقت پر مگر اس جلن سے بھی وہ درگندھ نہیں سگندھ فراہم کرتے ہیں اطر لفظوں میں احساس کے زخموں کو پھول اور ستارے بناتے ہیں۔ اکبؔر الٰہ آبادی کی طرح انہیں لفظوں کی خلّاقانہ تحریف پر قدرت ہے ایک حرف اِدھر سے اْدھر کیا اور طنزوتعریض کا مقصد پورا کر لیا پھر محاوروں پر وہ قدرت ہے کہ ان کے استعمال میں ذرا سی نادرہ کاری کر کے وہ تلسم نا آشنا ہونٹوں پر بھی مسکراہٹ بکھیر دیتے ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ وہ دقیانوسی ہیں نہ ماضی پرست اور ان دونوں کے بغیر ہمارے ادب میں طنزومزاح کا چراغ بہت کم روشن ہوا ہے۔ اسرؔار جامعی کے یہاں طنزومزاح کا تانا بانا فکرواحساس کی تازہ کاری سے بْنا جاتا ہے اور جب کبھی اس دائرے میں کوئی بے تْکا پن دکھائی دیتا ہے تو وہ اْسے جوں کا توں پیش کر دیتے ہیں ۔ طنزومزاح کا کمال ہی یہ کہ وہ آئینے کی طرح صاف اور شفاف ہو اور اْس مزاحیہ منظر سے لطف اٹھانے کے لئے ہلکے سے اشارے کی ضرورت ہو تو ہو کسی تبصرے کی گنجائش ہی نہ ہو۔ بےشک اْردو اَدب کا دامن طنزومزاح کے اعلیٰ نمونوں سے بھرا ہوا ہے مگر دْورِ حاضر میں اسرار جامعی کی تخلیقات نے اسے وسیع تر کیا ہے اِدھر طنزومزاح کی تمام تر توجہ نثر کی طرف ہوگئی تھی اْسے پھر سے نظم کا پیرایہ بخشنے کے سلسلے میں اْن کا کارنامہ قابل قدر ہے ان کے طنزومزاح میں محض ہنسی اور قہقہوں کی کھنک ہی نہیں ہے انسانی زندگی کی اونچ نیچ پر بھی نگاہ ہے۔ طنزومزاح نہایت نازک صنف ہے اسرؔار جامعی نے اسے پوری نزاکت اور لطافت کے ساتھ برتا ہے۔ ان کے شعر پر ان کے اپنے دور کی معاشرت کی اور اْس کی ناہمواری کی مہریں ثبت ہیں اور اسی کے ساتھ ان کی اپنی سلاست طبع ان ناہمواریوں پر نشان لگائی جاتی ہے مگر اس طرح کہ اس کی ساری ناگواریوں کی تلخی محض خندہ زیِر لب بن کر رہ جاتی ہے۔ دورِ حاضر میں جو خلاء پیدا ہوا تھا اْسے اسرؔار جامعی کی شاعری نے پْر کیا ہے اور اس انداز سے پْر کیا ہے کہ اس میں رشید احمد صدیقی اور مشتاق احمد یوسفی کے نثری طنزومزاح کی طْرفگی اور نادرہ کاری جا بجا در آئی ہے۔ اس لحاظ سے اس خشک اور بےہنگم دور میں اسرؔار جامعی کا کلام تازہ ہوا جھونکے کی طرح فرحت بخش ہے۔ اسرؔار جامعی بلا محا با اپنے اِردگرد کی مضحک تصویریں کھینچتے چلے جاتے ہیں ان کے پہلو کچھ اس طرح اْجاگر کرتے ہیں کہ ان پر ہنسی آتی ہے لیکن ان کا انداز مزاق اْڑانے کا نہیں ہوتا بلکہ ان کے پیچھے جلوہ گر حقیقتوں کی دھوپ چھاؤں دکھانے کا ہوتا ہے۔ وہ بڑی چابک دستی سے اْردو کے باکمال شاعروں کے اَسالیب اور اشعار کا چربہ اتارتے ہیں اور سؔودا سے لے کر اقباؔل تک کے سبھی سخنوروں سے فیض یاب ہوتے ہیں اور انہیں کے کلام کے رنگ وآہنگ سے نئے مضامین پیدا کرتے ہیں مگر کمال یہ ہے کہ ان کے کلام کواس طرح اپناتے ہیں کہ خود اصل شاعر بھی دعویٰ کرے تو قابلِ قبول معلوم نہ ہو۔ اسرؔار جامعی کی شاعری زبان کے ادراک اور تفہیم کی طرف راغب کرتی ہے وہ چھوٹے چھوٹے ذو معنی الفاظ سے نت نئے مضامین پیدا کرتے ہیں اور اکثر مطالب کے اسی دوہرے پن کو مزاھ سے اْبھارتے ہیں (مثلاً اسمِ اعظم اور یاد کےآخری مصرعے) ان کی نظموں میں ایک قدرتی ارتقا اور ربط ملتا ہے۔ ہر نظم گو یا اےک نقطئہ عروج کی طرف رواں ہے اور آخری مصرعے تک پہنچتے پہنچتے بھر پور طنزومزاح کا پہلو پیش کرتی ہے۔ اکثر مزاح نگار شاعروں کا جادوں شاعری کے بیانیہ انداز سے کمزور ہوجاتا ہے، واقعہ نگاری ایک الگ فن ہے اور واقعہ نگاری کے ذریعے طنزومزاح پیدا کرنا ابتدائی مرحلہ ہے یہی ابتدائی منازل آگے چل کر اْس منزل تک بھی پہنچتی ہیں کہ واقعہ کے بجائے محض الفاظ کی بندش یا اْلٹ پھیر سے مزاح پیدا کیا جاتا ہے یا اس سے آگے چل کر مزاح کا رشتہ محض تصورات سے اس طرح جْڑجاتا ہے کہ واقعہ اور لفظ دونوں مرکزی حیثیت کھو بیٹھتے ہیں۔ اسرؔار جامعی کی شاعری میں یہ سبھی منزلیں صاف صاف دکھائی دیتی ہیں اور ہر منزل میں انہوں نے اپنی حِسّ مزاح کو نہ صرف قائم رکھا ہے بلکہ اْس کے اظہار کے نت نئے طریقے اور اسلوب نکالے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ ان کا یہ مجموعہ کلام ہاتھوں ہاتھ لیا جائے گا اور اس کے وسیلے سے اْردو کے طنزیہ اور مزاحیہ اَدب میں خاطر خواہ اضافہ ہوگا۔